ہندوستان میں اکثر مسلم سلطنتیں اور مغلیہ
حکومت کے سربراہان اہل السنة والجماعةتھے؛ البتہ ملک میں کہیں کہیں
شیعہ حکومتیں یا ریاستیں بھی قائم ہوئیں
جن میں جون پور کی شرقی سلطنت(۱۳۹۴ء تا ۱۴۷۹ء
) اور فیض آ باد و لکھنوٴ کی اودھ حکومتیں (۱۷۲۲ء تا ۱۸۵۸ء)
زیادہ نمایاں ہوئی ہیں۔ ایران کے شیعی
صفوی حکومت نے ہمایوں بادشاہ کو پناہ دی اور اسے ہندوستان کی
حکومت دوبارہ دلانے اور سوری بادشاہ کو شکست دینے میں بھرپور
تعاون دیا۔ اس کے بعد سے شاہانِ مغلیہ کے ایران کے ساتھ
اچھے مراسم رہے اور اس کی وجہ سے شیعی عناصر کا حکومت میں
عمل دخل رہا۔ خصوصاً اورنگ زیب عالم گیر کے انتقال کے بعد جب
مغلیہ حکومت کمزور پڑنے لگی تو ان شیعی عناصر نے حکومت کی
باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور بادشاہ ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی
بنے رہے۔لال قلعہ میں تعزیہ داری اور شہزادوں کا اس میں
پوری دل چسپی سے حصہ لینا یہ سب کچھ شیعی
اقتدار کا ثمرہ تھا۔ شیعی عناصر معتدد بادشاہوں کا تختہ پلٹنے
حتی کہ ان کی ایذاء و قتل کی سازشوں میں بھی
شریک رہے۔ شیعوں کے دورِ عروج میں ان کے خلاف زبان کھولنا
کچھ آسان نہیں تھا۔ عام مسلمانوں کا عالم یہ تھا کہ بڑے بڑے سنی
جاگیر دار ان شیعہ عناصر کی دار و گیر کے خوف سے اہلِ تشیع
ہونے کا اعلان و اظہار کر دیا تھا۔
اس ماحول میں حضرت شاہ ولی
اللہ دہلوی
نے اس فتنہ کا ادراک کر لیا تھا اور ”اِزالةُ الخفاء فی
خلافةِ الخُلَفاء“ اور ”قرةُ العینین فی
تفضیل الشیخین“ کے
ذریعہ اہل السنة والجماعة کے موقف کو دلائل و براہین کے ساتھ پیش
فرمایا اور دشمنانِ صحابہ پر ضرب کاری لگائی۔ حضرت شاہ
صاحب کے بعد آپ کے فرزند و جانشین حضرت
شاہ عبد العزیز
نے ”تحفہٴ اثنا عشریہ“ لکھ کر روافض کے سامنے ایک ایسا چیلنج
کھڑا کردیا جس کا علمی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ ان کوششوں کی
وجہ سے ان حضرات کو شیعوں کے مظالم کا نشانہ بننا پڑا۔
ہندوستان
سے شیعی اثرات کا ازالہ
دارالعلوم ایک ایسے وقت میں
قائم ہوا جب کہ انگریزوں نے لکھنوٴ کی شیعی حکومت
کا ۱۸۵۷ء میں الحاق کرکے اس کا وجود مٹادیا تھا؛ لیکن
اودھ کی شیعی حکومت اورسلطنتِ مغلیہ میں ان کے گہرے
اثرات کی وجہ سے ان کے مذہبی عقائد کی چھاپ پورے ہندوستان پر پڑ
گئی تھی۔ پورے ہندوستان میں شیعی عقائد اور
ان کے مشرکانہ رسوم اس طرح غیر شیعہ مسلمانوں کے دل و دماغ میں
رچ بس گئے تھے کہ اگر ان کو صحیح طور پر کلمہٴ شہادت بھی ادا
کرنا نہ آتا ہو؛ مگر وہ تعزیہ داری اور اس کے ساتھ عقیدت مندی
کا والہانہ جذبہ سینوں میں موج زن رکھتے تھے اور اس کو اپنے مسلمان
ہونے کی سند سمجھتے تھے۔ سنی مسلمانوں کی مسجدوں میں
تعزیے رکھے رہتے تھے اور ان کے محلوں میں چبوترے بنے ہوتے۔ محرم
کے مہینے میں سنی مسلمان بڑی عقیدت سے تعزیہ
اٹھاتے۔ حیرت ناک بات یہ تھی کہ شیعہ اتنے بڑے ملک
میں سنیوں کے مقابل میں مٹھی بھر تھے؛ لیکن کروڑوں
اہل السنة والجماعة مسلمانوں کے دلوں میں شیعوں نے اپنے سارے عقائد و
مراسم، جذبات و خیالات کی چھاپ ڈال دی تھی اور پورے
ہندوستان کو شیعیت کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔
ایسے نازک حالات میں جب کہ
ہندوستان میں بیرونی حملوں سے مسلمانوں کے دین و ایمان
کو بچانے کی کوششیں جاری تھی، دارالعلوم دیوبند کے
اکابرین نے شیعیت اور سبائیت کے فتنہ سے بھی
مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کی سعیِ بلیغ کی۔ حضرت شاہ
ولی اللہ
دہلوی کے ان جانشینوں نے ناموسِ صحابہ کے دفاع اور مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی
اصلاح میں نہایت وقیع اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔حجة
الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی ”ہدیة الشیعہ“ اور
”اَجوِبہٴ اربعین“ جس میں اس فرقہ کے ذریعہ اٹھائے گئے
سوالوں کا بھرپور جواب دیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت مولانا
رشیداحمد گنگوہی
کی ”ہدایة الشیعہ“ طبع ہوئی، اس میں شیعی
پروپیگنڈوں کا بہت مسکت جواب لکھاگیا۔
حضرت نانوتوی نے عملی طور پر تعزیہ داری
اور دیگر شیعی رسوم کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کا بیڑا
اٹھایا۔ اس کی ابتدا قصبہ دیوبند ہی کی ایک
مسجد سے ہوئی ۔ حضرت نانوتوی اور ان کے ایک مریدحاجی
محمد یاسین عرف دیوان جی نے اعلان کردیا کہ اب تعزیہ
نہیں اٹھے گا، قصبہ کے شیوخ مرنے مارنے پر آمادہ ہوگئے؛ لیکن دیوبند
کے اہلِ حرفہ حضرت نانوتوی
کے ساتھ کھڑے ہوگئے ، پھر بالآخر مخالفین مغلوب ہوگئے اور تعزیہ کے
ڈھانچہ کو توڑ کر پھینک دیا گیا۔ قصبہ کے دوسرے محلوں کے
مسلمانوں کو بھی احساس ہوا کہ علمائے حق تعزیہ داری کی
مشرکانہ رسم کے مخالف ہیں تو انھوں نے بھی اسے سنجیدگی سے
سوچا اور اپنے اپنے محلوں کی مسجدوں سے تعزیوں کے ڈھانچے نکال کر باہر
پھینک دیے۔ اس طرح قصبہ دیوبند کے سنی مسلمانوں کے
دلوں سے اس مشرکانہ عقیدہ کے جراثیم دور ہوئے۔ حضرت نانوتوی نے اپنے متعدد خطوط میں شیعوں
کے پیدا کردہ شکوک اور ان کی خرافات کا پردہ فاش کیا ہے۔
ایسے خطوط اکثر فارسی زبان میں ہیں اور کچھ خطوط اردو میں
بھی ہیں جو آپ کے مجموعہٴ مکاتیب ”فیوض قاسمیہ“
میں شامل ہیں۔ حضرت نانوتوی کی کوششوں سے سادات کے متعدد
گھرانے شیعیت سے تائب ہو کر سنی ہوئے۔
حضرت نانوتوی کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد
سہارنپوری
عملی جد وجہد کے میدان میں آئے۔ آپ نے ریاست بھاول
پور میں شیعوں سے لوہا لیا اور انھیں شکست فاش دی۔
رد شیعیت میں آپ کی بلند پایہ تصنیف ”ہدایاتُ
الرشید فی اِفحام العنید “ ہے جو پونے نو سو صفحات پر پھیلی
ہوئی ہے اور اس موضوع کی مدلل اور مفصل ترین کتابوں میں
شمار کی جاتی ہے۔ شیعوں کے ساتھ مناظروں کے تجربہ سے دیگر
علمائے حق کو روشناس کرانے کے لیے آپ نے نے ایک دوسری کتاب
”مطرقة الکرامہ“ لکھی ۔ حضرت نانوتوی کے ایک دوسرے شاگرد حضرت مولانا رحیم
اللہ بجنوری
نے بھی شیعوں کے رد میں اہم علمی کارنامہ انجام دیا۔
ردِ شیعیت سے متعلق انھوں نے کئی علمی یادگاریں
چھوڑیں۔
بعد کے دور میں شیعیت
اور سبائیت کے رد میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں
امام اہل السنة والجماعة حضرت مولانا عبدالشکورفاروقی لکھنوی کا نام نامی سرِ فہرست ہے۔
حضرت مولانا لکھنوی
نے اس اہم موضوع کے ہر ہر گوشے سے متعلق اس قدر معلومات فراہم کردیں کہ اس
باب میں ان کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔ آپ نے مناظروں
اور تقاریر کے ذریعہ شیعی ایوانوں میں زلزلہ
برپا کردیا اور تاعمر شیعیت کے خلاف شمشیرِ براں بنے رہے۔
دیگر علمائے دیوبند خصوصاً حضرت شیخ الاسلام مولانا سید
حسین احمد مدنی
نے آپ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔
دارالعلوم نے صرف رسمی تعلیم
پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ پورے مسلم معاشرہ کے اعمال و عقائد کی
اصلاح کا بیڑا بھی اٹھایا۔ قیامِ دارالعلوم کے کچھ
عرصہ بعد ہی علمائے حق نے بدعات و خرافات اور مشرکانہ رسوم و عقائد کے خلاف
جو چومکھی لڑائی چھیڑی، اس جنگ میں علمائے حق کے ایک
حریف شیعہ بھی تھے۔ علمائے دیوبند کی انھیں
مخلصانہ تبلیغی و اصلاحی کوششوں سے آہستہ آہستہ سنی
مسلمانوں سے شیعی اثرات دور ہوئے اور انھوں نے شیعی رسوم
و خرافات سے توبہ کی۔
ناموسِ
صحابہ کا دفاع
علمائے دارالعلوم دیوبندتمام
صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں؛ البتہ
ان میں باہم فرقِ مراتب ہے تو عظمتِ مراتب میں بھی فرق ہے؛ لیکن
نفسِ صحابیت میں کوئی فرق نہیں؛ اس لیے محبت و عقیدت
میں بھی فرق نہیں پڑسکتا پس ”الصَّحابةُ کُلُّھُمْ
عَدُوْل“ اس مسلک کا سنگ
بنیاد ہے۔ صحابہٴ کرام حضور … کے بعد خیرالقرون میں
ہیں اور پوری امت کے لیے معیارِ حق ہیں۔
علمائے دیوبند انھیں غیر معصوم ماننے کے باوجود ان کی شان
میں بدگمانی اور بدزبانی کو جائز نہیں سمجھتے اور صحابہ کے بارے میں اس قسم کا رویہ
رکھنے والے کو حق سے منحرف سمجھتے ہیں۔علمائے دیوبند کے نزدیک
ان کے باہمی مشاجرات میں خطا و صواب کا تقابل ہے، حق وباطل اور طاعت و
معصیت کا نہیں؛ اس لیے ان میں سے کسی فریق کو
تنقید و تنقیص کا ہدف بنانے کو جائز نہیں سمجھتے۔ علمائے
دیوبند حضراتِ شیخین کی تفضیل کے قائل ہیں
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عظمت و احترام کے قائل ہیں؛ لیکن
بدقسمتی سے ہندوستان میں انگریزوں کی سازش سے ایسی
صورتِ حال پیدا ہوئی کہ شیعوں کی طرف سے حضراتِ صحابہٴ
کرام کی شان عالی میں تبرا
(نفرت)بازی کی جانے لگی اور اس کی وجہ سے شیعہ سنی
کشیدگی پھیلنے لگی۔ اس نازک دور میں تبراباز
شیعوں کے جواب میں حضرات علمائے دیوبند نے تحریکِ مدحِ
صحابہ شروع کی۔ حضرت مولانا عبد
الشکور لکھنوی
اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ علمائے کرام نے اس میں
سرگرم حصہ لیا۔ حضرت مدنی نے مقامِ صحابہ پر کامیاب مضامین لکھے اور
جب وقت کی سیاسی آندھیوں نے قافلہٴ اسلام کی
صفِ اول پر یلغار کی تو حضرت مدنی نے صحابہ کے معیارِ حق ہونے پر وہ مباحث تحریر
فرمائے، جو عصر حاضر کا سرمایہٴ فخر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس موضوع پر
مستقلاً تنظیم اہل السنة والجماعة ، تحریک اہلِ سنت وغیرہ ناموں
سے مختلف جماعتیں قائم ہوئیں، جن میں سید نور الحسن شاہ
بخاری، مولانا عبدالستارتونسوی ، علامہ دوست محمد قریشی
اور ان کے رفقائے کار نے قابلِ قدر کام کیا؛ جب کہ حضرت مولانا سید
عطاء اللہ شاہ بخاری
، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اور مولانا قاضی مظہر حسین
وغیرہ حضرات نے تحریک مدحِ صحابہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور
شیعیت کو دنداں شکن جواب دیا۔ ان بزرگوں کے علاوہ مولانا
ولایت حسین رئیس دیورہ صوبہٴ بہار، مولانا محمد شفیع
سنگتھروی، مولانا لطف اللہ جالندھری، مولانا یوسف لدھیانوی
وغیرہ علمائے دیوبند نے بھی اس محاذ پر گراں قدر خدمات انجام دیں۔
۱۹۷۹ء میں جب خمینی کے زیر قیادت ایران
میں انقلاب آیا اور شیعی حکومت قائم ہوئی۔ شیعی
حکومت نے زبردست پروپیگنڈہ کے ذریعہ اسے اسلامی انقلاب کا نام دیا
اور ملتِ اسلامیہ کے بیشتر افراد اس پروپیگنڈہ کی زد میں
آگئے۔ پورے عالمِ اسلام خصوصاً برِ صغیر میں ایرانی
انقلاب کو صالح اسلامی انقلاب سمجھا جانے لگا ۔ اس صورتِ حال کو دیکھ
کر علمائے دیوبند میدان میں آگئے اور انھوں نے ایران کے
اس نام نہاد اسلامی انقلاب کی قلعی کھول کر رکھ دی۔
اس سلسلہ میں خاص طور سے حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی کی کتاب ”ایرانی
انقلاب، امام خمینی اور شیعیت“ نے ایرانی
انقلاب کا خیر مقدم کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیں اور ان
کے سامنے حقیقت بے نقاب ہو کر آگئی۔
علمائے دیوبند کا یہ قابلِ
فخر کارنامہ ہے کہ انھوں نے برصغیر کو شیعوں کے ہمہ گیر اثرات
سے پاک کیا اور اہل السنة والجماعة کے عقائد و افکار کی حفاظت و اشاعت
کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ علمائے دیوبند نے
کتابوں، فتاوی اور بیانات کے ذریعہ امتِ مسلمہ کی بھر پور
رہ نمائی فرمائی اور اب بھی حسبِ ضرورت الحمد للہ یہ
سلسلہ جاری ہے۔ دارالعلوم میں تخصصات میں داخل طلبہ کو دیگر
ادیان و فرق کے ساتھ شیعیت کے سلسلہ میں بھی
محاضرات پیش کیے جاتے ہیں ۔
رد
شیعیت میں علمائے دیوبند کی تصنیفی
خدمات
(۱) ہدیة الشیعہ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (۲) الاجوبة الخاملة فی الاسولة الخاملة، حضرت نانوتوی (۳) اجوبہ اربعین در ردِ روافض، افادات حضرت نانوتوی، مرتب: صوفی عبد الحمید خان
سواتی (۴) ہدایة الشیعہ
، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (۵) ہدایات الرشید اِلی اِفحام العنید،حضرت
مولانا خلیل احمد سہارنپوری (۶)مطرقة الکرامةفی مرآة الامامة، حضرت مولانا خلیل
احمد سہارنپوری (۷)اِبطالُ
اصولِ الشیعہ، حضرت مولانا حکیم محمد رحیم اللہ بجنوری (۸)الکافی للاعتقاد فی الصافی، حضرت مولانا حکیم
رحیم اللہ بجنوری
(۹)المنار
رسائل السنہ والشیعہ، حضرت مولانا حکیم رحیم اللہ بجنوری (۱۰)ارشاد الثقلین، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی
(۱۱)دفع المجادلہ عن آیات المباہلہ، حضرت مولانا حبیب
الرحمن اعظمی (۱۲)عثمان
ذوالنورین، حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی (۱۳)فتنہٴ رفض، حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی (۱۴) ایرانی انقلاب خمینی اور شیعیت،
حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی (۱۵)شیعہ اثنا عشری اور عقیدئہ تحریفِ
قرآن، حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی (۱۶) شیعہ سنی اختلافات: حقائق کے آئینہ میں،
مولانا محمدمنظور نعمانی (۱۷) شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم، حضرت
مولانا محمد یوسف لدھیانوی (۱۸)اسلام اور شیعہ مذہب، مولانا امام علی دانش قاسمی
لکھیم پوری (۱۹) محاضراتِ رد شیعیت، مولانا محمد جمال میرٹھی
(۲۰)حضرت معاویہ
اور تاریخی حقائق، حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی (۲۱) اکابرِ صحابہ اور شہدائے کربلا پر افتراء ، مولانا عبد الرشید
نعمانی (۲۲) حقیقتِ شیعہ،
مولانا عبد الرشید نعمانی (۲۳)برأتِ عثمان ، مولانا ظفر احمد عثمانی (۲۴)ارشاد الشیعہ، مولانا سرفراز خان صفدر (۲۵) ازالة الشک فی مسئلة فدک، مولانا عبد الستار تونسوی
(۲۶)
شان حضرت فاروق اعظم، مولانا عبد الستار تونسوی (۲۷) شان سیدنا عثمان بن عفان، مولانا عبد الستار تونسوی (۲۸) شان حیدر کرار،
مولانا عبد الستار تونسوی (۲۹) خمینیت : عصرِ حاضر کا عظیم فتنہ،مولانا حبیب
الرحمن اعظمی (۳۰) شیعیت
قرآن و حدیث کی روشنی میں، مولانا حبیب الرحمن اعظمی
(۳۱)
شیعہ مذہب دین
و دانش کی کسوٹی پر، مولانا محمد عاشق الٰہی بلند شہری
(۳۲)
واقعہٴ کربلا اور
اس کا پس منظر، مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (۳۳)عقائد الشیعة، مفتی محمد فاروق میرٹھی
(۳۴)
شیعہ مذہب تاریخ
کے آئینے میں، حضرت مولانا محمد جمال استاذ دارالعلوم دیوبند ۔
***
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ،
جلد: 97 ، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء